ہندوستان، مسلمان اور ’’آر ایس ایس‘‘
بے شمار مثالیں ہیں مثلاً تلغ خان نے سلطان ناصر الدین محمود سے شکست کھائی تو اسے ایک ہندو راجپوت نے پناہ دی۔
اسی طرح رنتھمبور کے راجہ ہرمیر دیو نے علاء الدین کے خلاف ایک مسلمان سردار کو پناہ دی اور بعد ازاں کئی مغل شہزادوں کی بغاوتوں میں راجپوتوں نے حق دوستی ادا کیا اور پھر 1857 کی جنگ آزادی۔
ہوا یوں کہ طلوع اسلام کے بعد خود ہندوئوں میں مذہبی جوش کی تجدید ہوئی جس کے نتیجہ میں وشنومت اور ویرا شویتد جیسے مسلک منظر عام پر آئے، بھگتی اور خدا پرستی پر زور دیا گیا جو مسلمانوں میں تصوف کی شکل میں موجود تھے جس سے ہندوئوں، مسلمانوں میں تفریق نہیں قربت پیدا ہوئی جس کی تفصیلات کے ایل گابا کی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
پہلے پہل صوفیا نے ہی تبلیغ کے لئے اردو کو استعمال کیا تو اسی طرح ہندو ریفارمرز نے بھی علاقائی زبانوں کےنئے استعمال کو ترجیح دی۔
میرا بائی کے بھجن راجستھانی میں، ودیاپتی کے بھجن میتھیلی میں، چنڈی داس کے بھجن بنگالی میں، ناتھ سوامی کے بھجن مرہٹی زبان میں پڑھےاور گائے جاتے تھے۔
اس دور کے دوسرے سادھو، سنت، بزرگ مثلاً بھگت کبیر، گورونانک جی، سوورداس، تلسی داس اور ملک محمد جائسی نے ہندی زبان کو بدل بدل کر کئی صورتوں میں استعمال کیا۔
1526ءہندوستان پر بابر کے حملہ سے بہت ہی پہلے اسلام ہندوستان میں پھیل چکا تھا۔ ظہیر الدین بابر نے پانی پت کے میدان میں مسلمان حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہی مغلیہ خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔
بابر اور اس کے بعد آنے والے مغل حکمرانوں کی مخالفت و مخاصمت تو عموماً مسلمان حکمرانوں سے ہی رہی مثلاً گجرات، مالوہ، جونپور اور بنگال وغیرہ کے گورنروں سے جو سلطنت دہلی سے جداگانہ اپنی اپنی خود مختار حکمرانی قائم رکھنا چاہتے تھے۔
ہندوستان پر تقریباً 3سو سالہ مغلیہ تسلط کے 3 مرحلے ہیں۔ اول افغانوں اور راجپوتوں پر بابر کی فتح، دوم بابر کے بیٹے ہمایوں کی شیر شاہ سوری کے ہاتھوںشکست و پسپائی اور سوم ہمایوں کی ایران سے واپسی، بحالی اور اس کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر کے عہد میں مغل اقتدار کابھرپور استحکام۔
فن تعمیر میں اسلامی اور ہندو طرز تعمیر کی مکمل یگانگت کا بے مثال نمونہ دیکھنا ہو تو فتح پور سیکری کی تعمیرات پر غور کیجئے۔ اور نگ زیب عالمگیر کے عہد میں بیجا پور اور گولکنڈہ کو فتح کیاگیا جو مسلمان مملکتیں تھیں۔
ہندوستان متعدد نسلوں اور تمدنوں کا مرکب و مجموعہ رہا ہے۔ معلوم تاریخ کے 5 ہزار سال گواہ ہیں کہ اس عظیم برصغیر میں مختلف تہذیبوں کا غیر معمولی اور عظیم الشان تال میل رہا۔ نسلی اعتبار سے مسلمانوں کی بھاری ترین اکثریت، خواہ بھارت کےکسی علاقہ میں بھی ہوں، اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نسل سے باقی آبادی کا تعلق ہےاور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں اور ملک کی دوسری قوموں کے درمیان بے شمار ثقافتی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔
ایک غیر ملکی کے لئے کسی بنگالی مسلمان اور بنگالی غیر مسلم کے درمیان امتیاز کرنا آسان نہیںہوگا۔ اسی طرح ہزاروں میل کے فاصلے پر ایک پنجابی مسلمان و غیرمسلمان میں تمیز کرنا بھی آسان نہ ہوگا جبکہ یہی حقیقت مشرق میں آسام اور انتہائی جنوب میں کیرالا پر بھی صادق آتی ہے۔
لکھنؤ کے غیر مسلم باشندے بھی شرافت، نجابت، وضعداری، رکھ رکھائو، سبھائو اور اودھ کے نوابوں کی چھوڑی ہوئی شائستہ روایات پر اتنا ہی فخر کرتے ہیں جتنا لکھنؤ کے مسلمان باشندے۔
دوبراعظموں اور درجنوں ملکوں سے مسلمان اپنے مقدس مقامات کی زیارتوں کےلئے آتے ہیں تو سرہند شریف، اجمیرشریف، دہلی اور گلبرگہ وغیرہ میں سکھ اور ہندو ان کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ یہ وہاں کی خوب صورت روایات کا حصہ ہے اور ہر مہذب سچا انسان پرست چاہے گا کہ یہ روشن روایات زندہ رہیں۔
باقی تو چھوڑیں خود ہندوستان کے آئین کی رو سے جو 26 جنوری 1950 کو نافد ہوا، یہ طے پایا تھا کہ دوسرے شہریوں کی طرح مسلمانوں کوبھی مکمل سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور اقتصادی آزادی حاصل ہوگی۔
قانون کی نظر میں وہ دوسرے شہریوں کے برابر ہوں گے۔ مذہب، نسل، ذات پات، جنس یا جائے پیدائش کے اعتبار سے کسی طرح کا امتیاز روا نہ رکھا جائے گا اور سرکاری ملازمت کے حصول میں بھی انہیں یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔
بہت ہی طویل فہرست ہے ان مسلمانوں کی جنہوں نے بھارت کی سیاسی، عوامی، انتظامی، عسکری، سفارتی، تخلیقی، سائنسی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔
پہلی جنگ آزادی (1857) بھی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو سمبل بنا کر ہی لڑی گئی۔ مسلمانوں اور ہندوئوں نے مشترکہ طور پر اسی کے پرچم تلے خون بہایا۔ یہاں تک کہ مولوی احمد اللہ شاہ، صاحب زادہ فیروز شاہ، خان بہادر خان، جنرل بخت اور حضرت محل جیسے رہنمائوں نے بھی رانی جھانسی کاساتھ دیا۔
تقسیم ہند کےبعد وزیراعظم پنڈت نہرو کی اس تقریر کو کون بھلا سکتا ہے جس میں آپ نے کہا ’’ہم خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، سب بھارت کےبیٹے ہیں۔ یہاں فرقہ پرستی، مذہبی تنگ نظری کی حوصلہ افزائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ وہ قوم کبھی عظیم قوم نہیں بن سکتی جس کے بیٹے اپنے فکر و عمل میں تنگ نظرہوں‘‘۔
قارئین!
کالم اس بے کراں موضوع کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مختصراً یہ کہ مجھے یقین ہے ’’آر ایس ایس‘‘ کا نظریہ تاریخی طور پر ہی نہیں، آئینی، انسانی، اصولی اور بین الاقوامی تناظر میں بھی بہت کمزور، آئوٹ ڈیٹڈ، غیر حقیقی اور غیرمنطقی ہے جس پر آج نہیں تو کل......نظرثانی کرنا ہوگی۔ (ختم شد)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
تازہ ترین