شیئر کریں
معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر آزادی کے وقت کی مشکلات کیساتھ کراچی شہر کی حالت اور لوگوں کے جوش وجذبے کی داستان میں لکھتے ہیں کہ ہمارے خاندان کا قافلہ اماں جی کی قیادت میں پہلی اپریل1948ء کو پاکستان وارد ہوا‘ اس قافلہ میں میری بہن‘دو بھابیاں‘ان کے بچے‘میرے ایک بڑے بھائی اور دور دراز کے چند اور رشتہ دار شامل تھے‘میرے تین بھائی پہلے ہی کراچی پہنچ چکے تھے‘یہ تقسیم سے قبل سرکاری محکموں کی ملازمت میں تھے‘ اعلان پاکستان کے بعد سارے سرکاری ملازمین سے ان کے آپشنز پوچھے گئے تھے تو میرے بھائیوں نے پاکستان کی حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ سپیشل ٹرینوں کے ذریعہ دہلی سے کراچی آگئے۔عارضی طورپر کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایاگیا تھا کراچی میں سرکاری دفاتر اور ملازمین کیلئے رہائش گاہیں بڑی عجلت میں تعمیر کی جارہی تھیں‘دراصل جون میں پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہونے کے فوراً بعد جو بہت بڑا مرحلہ‘ پاکستان کی حکومت کو درپیش تھا وہ کراچی میں سرکاری دفاتر کی عمارتیں اور ملازمین کیلئے رہائش گاہوں کی فراہمی تھی‘ ہندوستان کو تو نئی دہلی میں سب کچھ بنا بنایا مل گیا تھا‘دفاتر‘ملازمین کی کالونیاں‘ ایوان صدر‘پارلیمان‘وزیراعظم‘ وزیروں اور اعلیٰ افسروں کے بنگلے وغیرہ۔ غرض جو کچھ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں نئی دہلی شہر میں تعمیر کیا تھا وہ سب ہندوستان کی نئی حکومت کے حصہ میں آگیا مگرپاکستان کی صورتحال بالکل مختلف تھی‘کراچی شہر ان ساری چیزوں سے محروم تھا نہ یہاں دفاتر کیلئے عمارات تھیں نہ پارلیمنٹ ہاؤس تھا‘ نہ سربراہ مملکت کیلئے سرکاری رہائش گاہ تھی نہ وزیروں‘ افسروں اور عام ملازمین کیلئے مکانات‘ لہٰذا بڑی تیزی سے یہ کام شروع کیاگیا اور تین مہینے کی قلیل مدت میں کم از کم اتنے انتظامات ضرور کر لئے گئے کہ نوزائیدہ مملکت کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔فرئیر روڈ کیساتھ ایک بڑے میدان میں پاکستان سیکرٹریٹ کی عارضی عمارت بلاکوں کی شکل میں تعمیر کی گئی‘سندھ کی صوبائی اسمبلی کو وفاقی پارلیمنٹ بنایاگیا‘ سندھ کے چیف کورٹ کو سپریم کورٹ اور سندھ کے گورنر ہاؤس کو گورنر جنرل ہاؤس میں تبدیل کردیاگیا۔ عام سرکاری ملازمین کے رہنے کیلئے فوجی بیرکوں کو جو انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران تعمیر کی تھیں‘مناسب ردوبدل کے بعد رہائش گاہوں میں تبدیل کردیاگیا‘یہ علاقے جیکب لائینز‘ ایبی سینیا‘ سینا لائینز‘ ٹونیشیا لائینز اور انٹیلی جنس سکول کے ناموں سے جانے جاتے تھے لیکن جس تعداد میں مکانوں کی ضرورت تھی وہ ناکافی تھے لہٰذا بڑی تعداد میں مارٹن روڈ‘ کلنٹن روڈ‘جیل روڈ‘جہانگیر روڈ اور لارنس روڈ کے علاقوں میں سرکاری کوارٹروں کی تعمیر شروع کی گئی چونکہ یہ سارا نظام عارضی نوعیت کا تھا اسلئے یہ مکانات بہت چھوٹے اور عام سہولیات سے محروم تھے۔ایک اور مقام پر ریڈیو کے ایک ڈی جی کے سامنے اپنی پیشی کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان پر1960ء میں پہلی بار’جشن طلبہ‘ منایاگیا‘حسینہ معین غالباً ان دنوں کراچی کے ویمنز کالج کی طالبہ تھیں‘جب میں نے ان کا لکھا ہوا ڈرامہ پڑھا تو مجھے بے حد پسندآیا‘میں نے فیصلہ کیا کہ یہ میں خود پر وڈیوس کروں گا‘اس چھوٹے سے ڈرامہ کا نام’پڑیاں‘تھا اس کے نشر ہونے کے چار پانچ روز بعد مجھے علم ہوا کہ سرکاری حلقوں میں اس پرکچھ تنقید کی جارہی ہے اورمارشل لاء والوں نے اس کا نوٹس لیا۔نتیجتاً ڈائریکٹر جنرل کے دفتر میں میری پیشی ہو گئی‘ ان دنوں ڈی جی رشید احمد تھے حسب حکم میں نئے ڈی جی کے دفتر میں حاضر ہوگیا‘انہوں نے ابتداء میں چندبنیادی سوالات کئے پھرانہوں نے نہایت شائستہ زبان میں ایسے الفاظ میں میری ذہانت‘ میری مہارت‘ میری تخلیقی صلاحیتوں کی تعریف کی کہ میں ساری پریشانی بھول گیا۔ مگر سب کچھ کہنے کے بعد انہوں نے اچانک اپنا لہجہ بدلا اور تعریف وتوصیف کے سارے لفظوں کو میرے منہ پردے مارا۔ انہوں نے کہا ’تم جیسے باصلاحیت اور لائق پروڈیوسر کی غلطی ناقابل معافی ہے اگر کوئی نالائق پروڈیوسر ہوتا تویہ غلطی نظر اندازکی جا سکتی تھی مگر تمہارا معاملہ مختلف ہے‘ انہوں نے ایک طویل وقفہ دیا مجھے گھورتے رہے پھرکہا‘ جو طریقہ اس سلسلہ میں میں نے سوچا ہے وہ یہ ہے کہ تم خود اپنے لئے سزا تجویز کرو‘ میں ڈی جی کے کمرے سے باہر نکلاتومیرا دوست محمد عمرانتہائی پریشانی کے عالم میں باہر کھڑا میرا انتظار کررہاتھا‘میں نے عمر کیساتھ اسکے کمرے میں بیٹھ کر مختصر ساخط لکھوایا‘ جس کامتن یہ تھا‘ڈیئر آغا ناصر‘ تم جیسے ذمہ دار اورباصلاحیت پروڈیوسر سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے وہ ناقابل تلافی ہے کسی نالائق پروڈیوسر کی غلطی تومعاف کی جا سکتی ہے مگر تمہاری غلطی نہیں لہٰذا میں یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں کہ تم اس ادارہ سے وابستہ نہ رہو۔عمر نے خط کا ڈرافٹ دیکھا تواس کاچہرہ فق ہوگیا۔ وہ میری خوشامد کرنے لگا‘ یار یہ ڈرافٹ ڈی جی کو نہ دے‘ تو نہیں جانتا‘ وہ اس پر دستخط کر دے گا مگر میں نے عمر کی ایک نہ سنی‘ آدھے گھنٹے کی مہلت ختم ہونے سے پہلے ہی لیٹر کا ڈرافٹ ڈی جی کے پرائیویٹ سیکرٹری کو جا کردیدیا اور ذہنی طور پرخود کو رضا مند کرنے لگا کہ وہ خط پر دستخط کر دیں گے اور میں ملازمت سے فارغ ہو جاؤں گا۔ پھر ہوا یہ کہ شام کو ڈی جی کے دستخطوں سے سٹیشن ڈائریکٹر کے نام خط آ گیاانہوں نے میرے ڈرافٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی‘ صرف ہر فقرے میں جہاں میں نے You لکھا تھا کاٹ کر we لکھ دیا تھا۔