کیا طالبان طاقت ور فریق کے طور پر افغان حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرسکتے ہیں؟
جولائی 13, 2021
share
واشنگٹن ڈی سی —
افغانستان میں طالبان کی جانب سے جہاں ملک کے ایک بڑے علاقے پر قبضے کا دعویٰ سامنے آیا ہے، وہیں ملک میں پرتشدد کارروائیوں کے ردعمل میں ہزاروں افراد کے طالبان کے کنٹرول والے علاقے چھوڑنے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں۔
اس صورت حال کو افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی بےحد غور سے دیکھا جا رہاہے۔ تاہم واشنگٹن ڈی سی میں افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے امریکی افواج کے انخلا پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ خطے کے کسی بھی ملک کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔
گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس (یو ایس آئی پی) میں ایک نشست کے دوران امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے طالبان کو واضح طور پر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کسی بھی فریق کی جانب سے کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ پاکستان کو منظور نہیں ہوگا اور یہ کہ فریقین کو مل بیٹھ کر تصفیہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ خطے کے دوسرے ممالک افغانستان میں امن کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔