برطانیہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا حق رکھتا ہے، برطانوی عدالت
لندن (مرتضیٰ علی شاہ) یوکے ہائی کورٹ آف جسٹس نے فیصلہ دیا ہے کہ جب تک برطانوی حکومت ٹریول وین ریڈ لسٹ والے ممالک کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر لیتی تب تک پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نہیں نکالا جاسکتا۔
لندن ہائیکورٹ میں مسٹر جسٹس لنڈن نے فیصلہ دیا ہے کہ پاکستانی کو ریڈ لسٹ سے نہیں ہٹایا جاسکتا، کیونکہ وبا سے نمٹنے کے لئے اقدامات اٹھانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
وزیر صحت اور معاشرتی نگہداشت کے خلاف عدالتی چیلنج ہائی کورٹ میں بیرسٹر زہاب جمالی نے تین برطانوی پاکستانی شہریوں عمر خالد، یاسر وہاب اور فیصل سعید کی جانب سے دائر کیا تھا، جو اپریل کے اوائل میں برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندی عائد کر نےکے فیصلے سے متاثر ہوئے تھے۔
قانونی چیلنج ان دلائل پر مبنی تھا کہ بھارت میں نسبتاً زیادہ تعداد میں انفیکشن ہونے کے باوجود جو کہ اب ڈیلٹا قسم کے نام سے جانا جاتا ہے، اسے 23 اپریل 2021 تک اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن 9 اپریل کو پاکستان اس فہرست میں شامل کر دیاگیا جب اس وقت وہاں انفیکشن کی شرح سب سے کم تھی۔
عدالت میں کارروائی کے دوران یوکے حکومت نے تسلیم کیا کہ جینومک تسلسل کے اعداد و شمار کے سلسلے میں ان کے اعداد و شمار اور پوزیشن درست نہیں تھی کیونکہ حکومت نے جینومک تسلسل سے متعلق تین دعویدار وں کے مجوزہ اعداد و شمار کو درست مان لیا تھا۔
پاکستان 2021 سے جینومک تسلسل کی فہرست دائر کررہا تھا لیکن پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرتے وقت حکومت کا خیال تھا کہ دسمبر 2020 سے پاکستان نے جینومک تسلسل کی فہرست داخل نہیں کی تھی۔ برطانوٰی حکومت نے کارروائی کے دوران اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔
یہ بات سامنے آئی کہ حکومت نے اس فیصلہ کے لئے 3،4 اعداد و شمار اور تحفظات پر انحصار کیا ہے کہ کون سے ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا جانا چاہئے لیکن اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک حقیقت میں غلط تھا۔ حکومت نے ان اعدادوشمار کا جواز پیش کرنے کے لئے کوئی تفصیلی اعداد و شمار جاری نہیں کئے۔
بیرسٹر زہاب جمالی نے کہا کہ دعویدار جینومک تسلسل کی فہرست کے معاملے پر اب اپیل کورٹ میں فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ کسی اور معاملے میں حکومت نے مان لیا ہے کہ ان کی 1750 پونڈز وصول کرنے کی پالیسی ہر چیز کا احاطہ کرنے کے لئےاتنی جامع نہیں ہوسکتی ہے کہ مناسب وقت میں ایک نئی پالیسی کو عام کیا جائے گا۔
بیرسٹر رشید احمد، جنہوں نے برطانوی حکومت کے ریڈ لسٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لئے ایک الگ مقدمہ دائر کیا تھا، کہا کہ ان کا کیس جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی حکومت کو جواب دینا ہوگا کہ اس نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں کیوں شامل کیا جبکہ اس وقت دوسرے ممالک میں کوویڈ پھیلنے پر وہ خاموش رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا، برطانوی حکومت نے اس وقت بری نیت کے ساتھ کام کیا۔
حکومت ان لوگوں کو معاوضہ دینے پر غور کرے جنہوں نے حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں نقصان اٹھایا ہے۔ عدالت میں پیش کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ 2 اپریل 2021 کو بھارت، بنگلہ دیش، برازیل، امریکہ، سپین، جرمنی اور فرانس جیسے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور کینیا میں نسبتاً کم خطرات تھے۔
اعداد و شمار کے مطابق ہر ایک لاکھ افراد پر پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد ان ممالک کے مقابلے میں دوسری سب سے کم تعداد تھی۔ جرمنی میں 34065، سپین میں 70394، فرانس میں 71929، بیلجیم میں 76613 اور ریاستہائے متحدہ میں 94393 کے مقابلہ میں پاکستان میں کیسز کی تعداد صرف 3070 تھی، اس کے باوجود ان ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
اہم خبریں سے مزید