X
پاکستان نے 10 سال قبل عالمی فرم کو 1.7ارب روپے کی غیر ضروری ادائیگی کیسے کی؟ ایف بی آر رقم بازیابی کا خواہاں
اسلام آباد (زاہد گشکوری) پاکستان نے 10 سال قبل عالمی فرم کو 1.7 ارب روپے کی غیرضروری ادائیگی کیسے کی؟ ایجیلیٹی فرم نے ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کی مدد سے مبینہ طور پر حساس ڈیٹا حاصل کیا، جب کہ ایف بی آر رقم بازیابی کی خواہاں ہے۔ دریں اثنا نیب نے حفیظ شیخ، عبداللّٰہ یوسف، سلمان صدیق سمیت دیگر حکام کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، 2010-11 میں اگر اس وقت کی وفاقی حکومت اپنی قانونی ٹیم کی ہدایت پر عمل کرلیتی تو پاکستان عالمی فرم سے 1.7 ارب روپے بچاسکتا تھا۔ اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ عالمی فرم ایجیلیٹی (پی ڈبلیو سی) کو حکومت پاکستان کی جانب سے جو رقم ملی تھی وہ قانونی طور پر اس کی حق دار نہیں تھی۔ کئی برس تک یہ معاملہ دبے رہنے کے بعد اب نیب نے فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام عہدیداران کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے جو مذکورہ کمپنی کو غیرقانونی طور پر ادائیگی میں ملوث تھے۔ جیو نیوز کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مسئلے کو دبایا گیا اور بہت سے احتساب ادارے اس ہائی پروفائل کیس میں زیادہ ثبوت حاصل کرنے میں مشکلات سے دوچار رہے۔ ان میں ہی 2010 میں پاکستان کی جانب سے مذکورہ کمپنی کو 1 کروڑ 12 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کا کیس بھی شامل ہے۔ نیب کراچی نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ اس نے حفیظ شیخ، عبداللہ یوسف، سلمان صدیق سمیت وزارت خزانہ، ایف بی آر، کسٹمز وغیرہ کے دیگر حکام کے خلاف ایجیلیٹی نامی کمپنی کو غیرقانونی ادائیگیوں میں ملوث ہونے پر ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، مذکورہ کمپنی کو یہ رقم ایف بی آر نے وفاقی حکومت سے منظوری لیے بغیر فراہم کی تھی۔ پیپلزپارٹی دور حکومت میں 2008 میں احمد وقار کے چیئرمین ایف بی آر بنتے ہی ایجیلیٹی کمپنی نے رقم کا مطالبہ شروع کردیا تھا۔ جب کہ ایف بی آر ایجیلیٹی نامی کمپنی کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس تنازعہ میں اضافہ ہوا۔ ایف بی آر نے چیئرمین احمد وقار کی سربراہی میں فیصلہ کیا کہ اس کی سوفٹ ویئر بنانے والی کمپنی پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) اپنا سوفٹ ویئر بنائے۔ پرال نے نصیرالدین خان کی سربراہی میں ایف بی آر کا اپنا سوفٹ ویئر 2009 میں تیار کیا۔ جب کہ چیئرمین ایف بی آر سہیل احمد نے ایجیلیٹی کو ادائیگی کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن 29 مئی، 2010 میں اس وقت کے وزیرخزانہ حفیظ شیخ نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ ایجیلیٹی سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنا سوفٹ ویئر 30 ستمبر، 2010 تک استعمال کرنے کی اجازت دے۔عبدالحفیظ شیخ نے چیئرمین ایف بی آر سہیل احمد کو بتایا کہ انہوں نے ایجیلیٹی کے مالک خائوری سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور سوفٹ ویئر کی خریداری سے متعلق بات کی اور وہ 1 کروڑ ڈالرز میں یہ ڈیل کرنے پر تیار ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ یہ ڈیل 50 سے 60 لاکھ ڈالرز میں کی جاسکتی ہے۔ سلمان صدیق کے چیئرمین ایف بی آر بننے کے بعد عبدالحفیظ شیخ نے ان سے ایجیلیٹی کمپنی کو 1 کروڑ 11 لاکھ 25 ہزار ڈالرز ادا کرنے کی درخواست کی، جو کہ سلمان صدیق نے کسٹمز افسران پول فنڈ سے ادا کیے۔ اس غیرقانونی ادائیگی کے بعد اس معاملے پر پردہ ڈال دیا گیا۔ ایجیلیٹی کمپنی یہ رقم وصول کرنے کے بعد ایف بی آر کے خلاف مصالحتی عدالت میں 2011 میں گئی۔ جہاں اس نے 5 کروڑ ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ کیا اور بعد ازاں یہ رقم بڑھا کر 43 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز کردی۔ دوسری جانب ایف بی آر سسٹمز آڈٹ رپورٹ میں اس سوفٹ ویئر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ عالمی فورم پر اس کیس کا دفاع بیرسٹر فرخ قریشی نے کیا ، جب کہ ایجیلیٹی کمپنی کیس سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہوگئی۔ جس کے بعد نیب نے بھی انکوائری شروع کردی۔ بیرسٹر فرخ قریشی کا کہنا تھا کہ اگر حکام اس کیس کی پیروی کرتے تو پاکستان ممکنہ طور پر 1.7 ارب روپے کی بھاری رقم بھی بازیاب کرسکتا تھا۔
اہم خبریں سے مزید