comparemela.com


چین کی کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال: چین آج کے دور میں آخر کتنا کمیونسٹ ہے؟
ورونیکا سمنک
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آج سے 100 سو سال قبل ہمسایہ روس میں زار کی سلطنت ختم کرنے والی بولشوک تحریک سے متاثر چینی باغیوں کی ایک ٹولی نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی سی پی) قائم کی۔
سویت کمیونزم کی طرح ان کی توجہ کا مرکز مزدور طبقہ تھا اور ابتدائی طور پر یہ تحریک بڑے بڑے شہروں میں مقبول ہوئی۔
مگر اس وقت برسراقتدار کومنٹینگ قوم پرستوں (کے ایم ٹی) کے ہاتھوں ان کی مشکلات بڑھنے لگیں تو کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما ماؤ ژیدونگ نے روایتی مارکسسٹ خیالات کو چھوڑ کے دیہاتی علاقوں میں مزاحمت کا انتظام کرنا شروع کر دیا۔
ان کا یہ لائحہ عمل کامیاب رہا اور سی سی پی چند ہی برسوں میں کے ایم ٹی کی سب سے بڑی حریف جماعت بن گئی۔
دو دہائیوں تک خانہ جنگی کے بعد سی سی پی کامیاب رہی اور اکتوبر سنہ 1949 میں ماؤ نے پیپلز ریبپلک آف چائنا کی مارکس اور لینن کے خیالات پر بنیاد رکھی۔
آج ایک صدی بعد بھی سی سی پی چین میں اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔
اس کے موجودہ لیڈر شی جن پنگ کو بہت سے لوگ ماؤ کے بعد طاقتور ترین لیڈر مانتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی، ریاست اور آرمی تینوں کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہیں جو کہ کمیونسٹ خیالات میں اہم ترین تین عناصر ہوتے ہیں۔
مگر آج کا چین ماؤ اور سی سی پی کے بانیوں کے خیالات سے بالکل مختلف ہے یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کے خیال میں متضاد ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
معاشی سپر پاور
اگرچہ ماؤ لیبر کو مجموعی بنیادوں پر لے آئے، معیشت کو سنٹرلائز کر دیا اور اپنے ثقافتی انقلاب کے دوران سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کو دیوار سے لگا دیا، آج چین میں ارب پتیوں کی دوسری بڑی تعداد موجود ہے۔
فوربز جریدے کی تازہ ترین فہرست کے مطابق چین میں 626 افراد کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور ان میں 239 اس فہرست میں گذشتہ سال شامل ہوئے ہیں۔
صرف امریکہ میں اس سے زیادہ ارب پتی ہیں جہاں پر یہ تعداد 724 ہے تاہم کمپنیوں کی درجہ بندی میں چین سب سے آگے ہے۔ دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں 124 چینی ہیں۔
دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جس کی 121 کمپنیاں ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے امریکہ سب سے آگے ہے مگر قوتِ خرید کے تناظر میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔
اس کا بینکاری کا سیکٹر بھی دنیا کا امیر ترین اور اثاثوں کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا بینک آئی سی بی سی بھی چین کا ہے۔
تو ہم یہ کیسے سمجھائیں کہ دنیا کے سب سے بڑے کمیونسٹ ملک کے پاس اتنی دولت ہے اور کچھ ماہرین کے خیال میں جلد دنیا کا مرکزی معاشی سپر پاور بننے والا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’چینی طرز کا سوشل
ازم‘
اس سوال کا جواب ان تبدیلیوں میں ہے جو دنگ شاؤ پنگ نے سنہ 1978 میں لائی تھیں۔ ماؤ کے انتقال کو ابھی دو سال ہوئے تھے اور دنگ شاؤ پنگ نے ایک ایسا معاشی پروگرام متعارف کروایا جسے ریفارم اینڈ اوپنگ (اصلاحات اور مارکیٹیں کھولنا) کے نام سے جانا گیا۔
دنگ نے بالکل ماؤ کے برعکس کیا: انھوں نے معیشت کھول دی، نجی سیکٹر کو ابھرنے دیا اور طاقت کو تقسیم کیا اور فیصلے کرنے کے اختیارات مقامی سطح کے حکام کو دے دیے۔
انھوں نے آہستہ آہستہ کومینز ختم کیے اور لوگوں کو اور زیادہ آزادی دینا شروع کر دی۔ اب وہ اپنی زمینوں پر جو اگاتے تھے اسے بیچ سکتے تھے۔
انھوں نے عالمی سطح پر بھی چین کے تعلقات بڑھائے۔ سرد جنگ کے دوران ماؤ کے آخری برسوں میں نیکسن نے چین کا تاریخی دورہ کیا تو اس کے بعد دنگ شاؤ پنگ بھی امریکہ گئے اور واشنگٹن میں تعلقات بڑھائے۔
اس طرح مغربی ممالک اور چین کے لیے درمیان معاشی تعلقات بڑھنے لگے۔ معروف مغربی برانڈ میکڈونلڈز، کوکا کولا اور بوئنگ کو چین کے ساتھ کام کرنے دیا گیا۔
دنگ شاؤ پنگ نے سرمایہ دارانہ نظام کے جو محدود عناصر متعارف کروائے اس کے نتیجے میں بننے والے نظام کو چین کی خصوصیات والے سوشل ازم کا نام دیا گیا۔
یہ ایک کامیاب فارمولا تھا جس کی وجہ سے چین تین دہائیوں تک تیزی سے ترقی کرتا گیا۔ ان کے بعد آنے والے رہنماؤں یانگ زیمن، ہو جنتاؤ اور موجودہ شی جنگ پنگ نے وہی سلسلہ برقرار رکھا۔ چین دنیا کا تجارتی مرکز بن گیا اور دنیا میں سب سے زیادہ چیزیں بنانے اور برآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
آج چین کپڑا بنانے، ٹیکسٹائلز اور برقی آلات کی مارکیٹوں پر غالب ہے اور متعدد چینی کمپنیاں ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں سب سے آگے ہیں جیسے کہ لینووو اور علی بابا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں سے 124 چینی ہیں
چین کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہواوے فائیو جی ٹیکنالوجی کی ترقی میں سرفہرست ہے اور دنیا میں موبائل فون بنانے والے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔
فوربز کی فہرست میں شامل کئی چینی ارب پتی افراد میں سے بہت سے ان اور دیگر کامیاب نجی کمپنیوں کے بانیان میں سے ہیں۔
ابھی بھی سوال یہی ہے کہ کیا ہم چین کو کمیونسٹ ملک کہہ سکتے ہیں۔
مختار کل
سیاسی نکتہ نظر سے اس کا جواب ہاں میں ہے۔
اپنے قیام کے ایک صدی بعد بھی سی سی پی ہی چین میں ایک واحد سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے، جس کا طرز حکمرانی ملک بھر کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ پارٹی ہر شہر اور ہر ضلعے میں اپنا نسق قائم کیے ہوئے ہے۔
پارٹی کا ڈھانچہ ایک اہرام کی شکل کا ہے جس میں سب سے بڑی پوزیشن پر بہت کم ارکان ہیں، جنھیں فیصلہ سازی کا اختیار ہے اور ساڑھے نو کروڑ سے زیادہ ارکان سب سے نچلے درجے پر ہیں۔ نیشنل پیپلز کانگرس یعنی پارلیمنٹ چین کے صدر کا انتخاب کرتی ہے اور اس ادارے پر براہ راست سی سی پی کا کنٹرول ہے۔
سی سی پی حکومت میں تمام اعلیٰ حکام کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کی نگرانی میں چلنے والی کمپنیاں، سکول، ہسپتال اور سماجی گروپ بھی اس پارٹی کی نگرانی میں رہتے ہیں۔
جس طرح کسی جمہوری ملک میں متعدد سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں مگر چین میں ہمارے خیال کے برعکس سی سی پی کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ بیپتیسا یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر جین پیری کیبستن نے فارن پالیسی میگزین میں سی سی پی کے بارے میں لکھا کہ یہ ’پارٹی سٹیٹ‘ ہے۔ یہ پارٹی سٹیٹ اپنے نظریے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ آزادی صحافت کا کوئی تصور نہیں تاہم کچھ نجی میڈیا ہاؤسز ضرور موجود ہیں مگر میڈیا حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چین کی حکومت انٹرنیٹ، میڈیا اور تعلیمی شعبے پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔اس تنظیم کے مطابق چین کی حکومت مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم بھی ڈھا رہی ہے اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو حراست میں رکھتی ہے تاہم اگر اس ملک کو معاشی نکتہ نظر سے پرکھا جائے تو معاملہ یکسر مختلف ہے۔
یہ بھی پڑھیے
،تصویر کا کیپشن
اکتوبر سنہ 1949 میں ماؤ نے پیپلز ریبپلک آف چائنا کی مارکس اور لینن کے خیالات پر بنیاد رکھی
چین کی معیشت کے پیچھے سی سی پی کا ہاتھ
کیلسے براڈرک عالمی امور کے ماہر تجزیہ کار ہیں اور وہ ایشیائی امور پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ معاشی اعتبار سے آج کا چین کمیونزم سے زیادہ سرمایہ دارانہ نظام کے قریب ہے۔
ان کے مطابق یہ ایک کنزیومر سوسائٹی ہے جو کہ کمیونزم کے بالکل برعکس ہے تاہم کیلسے براڈرک نے متنبہ کیا کہ اگرچہ بظاہر چین کی معیشت سرمایہ دارانہ نظر آتی ہے لیکن اگر آپ پہلی تہہ کو ہٹائیں تو آپ کو پارٹی کا مضبوط ہاتھ اس کے پیچھے نظر آئے گا۔
سی سی پی کا ’نہ نظر آنے والا ہاتھ‘ ہی چین کی معیشت کے ہر پہلو میں موجود ہے۔
اگرچہ نچلی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام سے ہی معاملات چلائے جاتے ہیں جبکہ اعلیٰ سطح پر کنٹرول زیادہ نمایاں ہے۔ جہاں سے ریاستی سطح کے تمام اہم فیصلے کیے جاتے ہیں مثلاً چین کی کرنسی یوہان کی قیمت کیا ہو گی اور زر مبادلہ کون خرید سکے گا۔
ملک کی سب سے بڑی کمپنیوں کو بھی سی سی پی ہی کنٹرول کرتی ہے۔
درحقیقت فورچون گلوبل ( Fortune Global) کی فہرست میں موجود چین کی 70 فیصد یعنی 124 کمپنیوں میں سے 84 سرکاری کمپنیاں ہیں۔
سرکاری طور پر سی سی پی ہی چین کی تمام زمین کی مالک ہے اگرچہ عملی طور پر لوگ کچھ برسوں کے لیے نجی ملکیت کے مالک بن سکتے ہیں۔
اور یہ بینکنگ کے نظام کو بھی کنٹرول کرتی ہے اور اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کسے قرض جاری کرنا ہے۔
براڈرک کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ چینی نجی کمپنیوں کو بھی ریاستی معائنے سے گزرنا ہوتا ہے اور ان کے پاس ’پارٹی کمیٹیاں ہوتی ہیں جو فیصلہ سازی کو متاثر کر سکتی ہیں۔‘
غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، جن میں سی سی پی کے کم از کم تین رکن ضرور کام کرتے ہیں۔
نجی کمپنیوں اور ریاست کے مابین موجود یہ دھندلی سی سرحد ہی حالیہ برسوں میں ہواوے کے تنازعے کے پیچھے ہے، جب امریکہ نے چین کی سب سے بڑی نجی کمپنی پر سرکاری جاسوسی کا محاذ ہونے کا الزام لگایا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن
چین کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہواوے فائیو جی ٹیکنالوجی کی ترقی میں سرفہرست ہے اور دنیا میں موبائل فون بنانے والے بڑے اداروں میں سے ایک ہے


یہ سوشلسٹ خصوصیات جو اب بھی چینی معاشی ماڈل میں موجود ہیں اور بہت سے تجزیہ کاروں نے اسے ’ریاستی سرمایہ داری‘ کا نام دیا ہے، نے چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ کو بھی تیز کر دیا ہے۔
اگرچہ یہ تنازعہ تجارتی توازن پر مرکوز ہے لیکن یہ بہت حد تک بیجنگ کے حق میں ہے۔
صحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈیگو لاجے کہتے ہیں کہ ’چین کی پرائیویٹ کمپنیوں کو دوگنا فائدہ ہے: وہ سرکاری بینکوں سے قرض لیتی ہیں اور ریاستی کمپنیوں سے توانائی پر سبسڈی وصول کرتے ہیں جو ملک کی تمام تر توانائی کی پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘
لاجے کا ماننا ہے کہ چین کو ’سرمایہ دارانہ نظام نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا، جس میں چین سنہ 2001 میں شامل ہوا اور جو اب بھی اسے ’مارکیٹ اکانومی‘ کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’روز مرہ کی بنیاد پر ریاست کی مداخلت محسوس نہیں ہوتی جس سے آزادی کا ایک احساس ہوتا ہے۔‘
جنوب مشرقی چین سے تعلق رکھنے والی ژاؤ لن جو تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کے لیے بیجنگ آ گئی ہیں نے بتایا کہ ان کے تجربے میں ’چین تیزی سے سرمایہ دارانہ بنتا جا رہا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’گھر بہت زیادہ مہنگے ہیں اور صرف امیر لوگ ہی انھیں خرید سکتے ہیں۔ میری طرح کے نوجوان اپنا گھر نہیں لے سکتے اور ہم اپنے والدین اور آباؤاجداد پر ہی انحصار کرتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
صحت کے نظام میں بھی یہ قابل توجہ ہے: زیادہ تر چینی عوامی نظام پر ہی انحصار کرتے ہیں جہاں اکثر ہی رش رہتا ہے تاہم امیر افراد پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔
چین میں تعلیم کے شعبے میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ ابھی بھی سرکاری سرپرستی میں ہے لیکن اب یہ مکمل طور پر مفت نہیں۔
لن نے بتایا: ’نو برس کی تعلیم لازمی ہے لیکن اس کے لیے آپ کو ادائیگی نہیں کرنا ہوتی لیکن سکینڈری سکول اور یونیورسٹی جانے کے لیے آپ کو پیسے بھرنے پڑتے ہیں۔‘
جہاں وہ اپنی زندگی میں ریاست کی موجودگی کو سب سے زیادہ محسوس کرتی ہے وہ سکیورٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے لحاظ سے ہے۔
’چین محفوظ ترین ملک ہے اور حکومت ہماری حفاظت کی گارنٹی دیتی ہے لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندیاں ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
تضاد۔۔۔؟
اپنی تشکیل کے 100 سال بعد سی سی پی، جس نے ماضی میں ’سرمایہ داری‘ پر یقین رکھنے والوں کو تنگ کیا تھا، اپنی ’ریاستی سرمایہ داری‘ کی کامیابی کی وضاحت کیسے کرتا ہے جس کی وجہ سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے؟
ہارورڈ یونیورسٹی میں ایش سینٹر کے ڈائریکٹر اینتھونی سیچ کہتے ہیں کہ سی سی پی کی قیادت نے کھیل کو تبدیل کر دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’چین کے موجودہ رہنماؤں نے تاریخ کو اس طرح سے دوبارہ لکھا ہے جو سرکاری تاریخ کے اس پہلو کو مٹا دیتی ہے۔‘
’جہاں وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ماؤ نے شاید کچھ غلطیاں کیں وہیں وہ ’سرمایہ دارانہ نظام کے پیروکاروں‘ پر حملوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ثقافتی انقلاب کی وضاحت اس تجربے کے طور پر کرتے ہیں جس سے جماعت نے سبق حاصل کیا۔ وہ زور دیتے ہیں کہ یہ بدعنوانی، نوکر شاہی پر حملہ تھا، وغیرہ۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن
شی جن پنگ کو بہت سے لوگ ماؤ کے بعد طاقتور ترین لیڈر مانتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی، ریاست اور آرمی تینوں کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہیں جو کہ کمیونسٹ خیالات میں اہم ترین تین عناصر ہوتے ہیں
اینتھونی سیچ کہتے ہیں کہ شی جن پنگ سنہ 1949 کے بعد کے دور کو دو کہانیوں میں دیکھنے کی بجائے (ایک ماؤ کے ماتحت اور ایک اصلاحات کے تحت) اسے ایک تجربے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کا نتیجہ پارٹی کی موجودہ صورت میں نکلا۔
بہت سے دوسرے ماہرین کی طرح سیچ کا مشاہدہ ہے کہ شی جن پنگ کے دور حکومت میں چین ’مارکیٹ کے مزید آزاد اثر و رسوخ سے دور چلا گیا ہے جن کا پہلے تجربہ کیا گیا تھا۔‘
براڈرک کے مطابق چینی رہنما کو یقین ہے کہ سوویت یونین اس لیے بکھرا کیونکہ انھوں نے اپنی کمیونسٹ بنیادوں کو ایک طرف رکھ دیا اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ یہ ان کے ملک میں بھی ہو۔
شی کا چین زیادہ سرمایہ دارانہ بن رہا ہے یا کمیونسٹ؟ سیچ کا ماننا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی آپشن درست نہیں۔
اسی بارے میں
1 جولائی 2021

Related Keywords

Beijing ,China ,Russia ,Washington ,United States ,Chinese ,Soviet ,Karl Marx ,Congressa Parliament China ,No Schoole University ,Human Rights Watch ,World Trade Organization ,The Army ,Harvard Universitya Center ,October ,Julius Marx ,China Maoist ,Maoist Labour ,Cultural Revolution ,China Best ,How Explain ,Reform Andy ,Her Land ,World Level ,Cold War ,Coca Cola ,Shi War ,Parliament China ,Political Science ,Professor Jane Perry ,Read China ,State Level ,China October ,Education Gain ,Chinese Public ,Description How ,More Independent ,Soviet Union ,July October June ,News July ,பெய்ஜிங் ,சீனா ,ரஷ்யா ,வாஷிங்டன் ,ஒன்றுபட்டது மாநிலங்களில் ,சீன ,சோவியத் ,கார்ல் மார்க்ஸ் ,மனிதன் உரிமைகள் வாட்ச் ,உலகம் வர்த்தகம் ஆர்கநைஸேஶந் ,ஏ இராணுவம் ,அக்டோபர் ,ஜூலியஸ் மார்க்ஸ் ,கலாச்சார புரட்சி ,அவள் நில ,உலகம் நிலை ,குளிர் போர் ,கோகோ கோலா ,பாராளுமன்றம் சீனா ,பொலிடிகல் அறிவியல் ,நிலை நிலை ,சீனா அக்டோபர் ,விளக்கம் எப்படி ,மேலும் சுயாதீனமான ,சோவியத் தொழிற்சங்கம் ,செய்தி ஜூலை ,

© 2025 Vimarsana

comparemela.com © 2020. All Rights Reserved.