جیون ساتھی کا انتخاب اُس کے جسم سے آنے والی خوشبو کی مدد سے بھی کیا جا سکتا ہے؟
2 جولائی 2021، 09:18 PKT
،تصویر کا ذریعہMichal Bialozej
XIV
(چودہ) کو خوشبوؤں کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان کے محل کے ہر کمرے میں پھول سجے ہوتے، فرنیچر اور چشموں کے پانی پر خوشبودار سپرے کیا جاتا اور محل میں داخل ہونے سے قبل آنے والوں پر خوشبو کا چھڑکاؤ کیا جاتا۔
چاہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی ذاتی حفظان صحت ان معیاروں پر منحصر نہیں تھی جن کی ہم آج توقع کر سکتے ہیں یا یہ کہ انھیں خوشبو سے کھیلنا اچھا لگتا تھا، لیکن لوئس کو اندازہ تھا کہ خوشبو بہت ضروری ہے۔
ہمارے جسم سے آنے والی بو ہماری صحت کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتی ہے۔
میک کوائر یونیورسٹی سے منسلک آسٹریلیا کے ماہر نفسیات مہمت مہموت کہتے ہیں ’اس سے ہماری غذا کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے۔ اس حوالے سے متعدد مطالعے ہیں مگر ان میں تضاد پایا جاتا ہے لیکن میرے گروپ کو یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ گوشت کا جتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں آپ سے اتنی ہی خوشگوار بو آتی ہے۔‘
ماہواری کے سائیکل میں فولیکیولر فیز (وہ مرحلہ جب خواتین کے جسم سے ایگز کا اخراج ہوتا ہے) کے دوران مردوں کو خواتین کے جسم کی بُو خوشبودار اور پُرکشش محسوس ہوتی ہے، جبکہ ماہواری کے دوران خواتین کے جسم سے آنے والی بو اتنی پرکشش نہیں لگتی۔
اس مطالعے کے مصنفین کے مطابق ہمارے قدیم آباؤ اجداد کے لیے شاید بہترین افزائش نسل کے لیے اچھے ساتھی کا پتہ لگانے کا یہ طریقہ کار آمد ثابت رہا ہو گا۔ مردوں میں ٹسٹوسٹرون (مردوں میں پیدا ہونے والا ہارمون) کی سطح بھی ان کے جسم سے آنے والی بو میں بہتری لا سکتی ہے۔
اگرچہ ہمارے جسموں سے آنے والی بُو ہماری غذا اور صحت کے لحاظ سے تبدیل ہو سکتی ہے لیکن وہ چیزیں جو ہماری مخصوص جسمانی بو کو منفرد بناتی ہیں اُن کا تعین ہمارے جینیات سے بھی ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کی ایک مخصوص بو ہوتی ہے اور سونگھنے کی حس بھی اس حد تک درست ہوتی ہے کہ بعض افراد اس حِس کو استعمال کرتے ہوئے بہت سی ٹی شرٹس میں سے جڑواں بچوں کی ٹی شرٹس ڈھونڈ سکتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہMichal Bialozej
جڑواں لوگوں کے جسم کی بو اس حد تک ایک جیسی ہوتی ہے کہ ایک تجربے کے دوران ایک محقق نے ایک ہی شخص کی دو ٹی شرٹس کے بارے میں سمجھا کہ یہ جڑواں افراد کی شرٹس ہیں۔
پولینڈ میں یونیورسٹی آف راکلا کی ماہر نفیسات اگنیسکا سوروکوسکا کہتی ہیں کہ یہ اہم ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم سے کیسی بو آتی ہے، اس کا انحصار جینیات پر ہوتا ہے لہذا ہم لوگوں کو سونگھ کر ان کی جینیات کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
ہم ایسے کاسمیٹکس کا انتخاب کرتے ہیں جو ہماری جینیاتی طور پر طے شدہ بو کی ترجیحات سے ملتے ہیں۔ سوروکوسکا اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کسی شخص کے کسی خوشبو کے انتخاب سے اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بادشاہ لوئس کے مہمان اُن کے محل میں پہنچتے ساتھ ہی ہوا کو سونگھ کر بادشاہ کے بارے میں ابتدائی رائے قائم کر لیتے ہوں گے۔
کیا ہمارے جسم سے آنے والی بو ہمارے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
ایک تحقیق کے دوران خواتین کو کچھ ایسی ٹی شرٹس دی گئیں جنھیں مختلف مردوں نے پہنا تھا۔ خواتین سے کہا گیا کہ ان ٹی شرٹس سے آنے والی بُو کی اپنی پسندیدگی کے لحاظ سے درجہ بندی کریں۔ خواتین نے بو کے لحاظ سے ان ٹی شرٹس کی جو ترتیب بنائی اس فرق کو ایچ ایل اے ( HLA) یعنی ’ہیومن لیوکوسائٹ اینٹی جن‘ کہا جاتا ہے۔
ایچ ایل اے پروٹینز کا ایک گروپ ہے جو ہمارے مدافعتی نظام کو ایسے خلیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کرتا ہے جو ہم سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے خلیات جو کسی اور سے تعلق رکھتے ہیں۔
انسانی جین کا ایک حصہ مدافعتی عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور سائنسدان اس کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے مدافعتی نظام میں کوں کون سی بیماریوں کے خلاف مدد مل سکتی ہے۔
آپ کا ایچ ایل اے کسی دوسرے انسان سے کافی مختلف ہو سکتا ہے، تاہم یہ آپ کے قریبی رشتہ داروں سے کچھ مطابقت رکھ سکتا ہے۔ جینیاتی نقطہ نظر سے کسی ایسے فرد کے ساتھ پارٹنر شپ کر کے بچہ پیدا کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے جس کا HLA آپ سے مختلف یا الگ ہو۔
سوروکوسکا کہتی ہیں ’اگر آپ کا ساتھی جینیاتی طور پر مدافعتی پروفائل میں آپ سے مختلف ہے تو پھر آپ کے بچوں میں بیماریوں سے لڑنے کی مدافعت زیادہ ہو گی۔‘
،تصویر کا ذریعہMichal Bialozej
ان خواتین نے ان ٹی شرٹس کو ترجیح دی جو سب سے زیادہ مختلف ایچ ایل اے رکھنے والے مردوں نے پہنی تھیں۔ لہذا وہ مدافعتی نظام جینیات کے لحاظ سے مردوں کو پہچاننے اور ترجیح دینے کے قابل تھیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں اور یقینی طور پر انھوں نے یہ ترجیح لاشعوری انداز میں دی تھی۔
سوروکوسکا کا کہنا ہے کہ مخصوص میکانزم جس کی وجہ سے HLA میں تفاوت پیدا ہوتا ہے اور جسم کی بو کو بہتر انداز میں جانچا جا سکتا ہے، زیادہ جانا پہچانا نہیں۔
’لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایچ ایل اے کے نتیجے میں کچھ مادے پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے جلد کے بیکٹیریا کے ذریعہ ہضم ہوتے ہیں اور ایک خاص بو پیدا کرتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
کیا انسان اپنے ساتھی کا انتخاب کرنے کے لیے جسم کی بو میں پوشیدہ جینیاتی معلومات کا استعمال کرتے ہیں؟ ایسا لگتا نہیں۔ 3700 شادی شدہ جوڑوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کا اپنے ایچ ایل اے سے مختلف پارٹنر کے ساتھ ملنے کا امکان بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بو کو ترجیح دیں اور اس کی کوئی جینیاتی وجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن ہم شادی کے لیے کسی شخص کا انتخاب کرتے ہوئے اس کے جسم سے آنے والی خوشبو کو اہمیت نہیں دیتے۔
سوروکوسکا کہتی ہیں کہ اگرچہ ایچ ایل اے ہمارے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوتا لیکن یہ جنسی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
مہموت نے یونیورسٹی آف ڈریسڈن، جرمنی میں الونا کروئے کے ساتھ ایک مطالعے میں تجویز کیا کہ ایسے لوگ جو سونگھنے کی حس سے محروم ہو جاتے ہیں، ان کے رشتوں اور تعلقات کے نتائج اکثر خراب ہوتے ہیں۔
جوڑے جن میں ایچ ایل اے تفاوت بہت زیادہ ہوتا ہے، ان میں جنسی تسکین اور بچے پیدا کرنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔
خواتین میں یہ زیادہ دیکھا گیا ہے۔ ایسی خواتین جنھوں نے اپنے سے مطابقت رکھنے والے ایچ ایل اے کے حامل مرد کو اپنا ساتھی چنا، اُن میں جنسی تسکین کی کمی اور بچے پیدا کرنے کی کم خواہش دیکھی گئی۔ اگرچہ متعدد مطالعوں کے شواہد کو مدنظر رکھا جائے تو اس کا اثر حتمی نہیں ہو سکتا۔
ارتقائی ماہرین حیاتیات کے نزدیک خواتین کا انتخاب پر زور دینا بامعنی ہے۔ اگر فطرت کو دیکھا جائے تو مادہ، نر کا انتخاب کرتی ہیں کیونکہ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو بچوں کی پرورش میں سب سے زیادہ محنت کرتی ہے اور اسی وجہ سے جینیاتی طور پر کمتر نر کے ساتھ ان کا ملاپ زیادہ نقصان کا موجب ہو سکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہMichal Bialozej
خواتین کو اپنی پسند کا حامل ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے مرد اکثر زیادہ رنگین ہوتے ہیں، ڈانس کرتے ہیں، گانا گاتے اور تحفے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے جینیاتی معیار کو ثابت کر سکیں۔
جسم کی بو اور انسان کی جینز میں تعلق کی وجہ سے یورپی ممالک میں ٹی شرٹ سپیڈ ڈیٹگ میں اضافہ ہوا ہے یعنی مرد اپنی ٹی شرٹ کو ایک تھیلے میں رکھ دیتے ہیں اور خواتین ان کو سونگھ کر اپنے لیے مرد کا انتخاب کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ممالک میں مردوں کی بو کو ڈاک کے ذریعے بھیجنے کی سروس کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے لیکن بو کی بنیاد پر ڈیٹنگ سے متعلق اچھے فیصلے کرنا ابھی واضح نہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم کسی چیز کو ترجیح دیتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اس ترجیح کی بنیاد پر انتخاب نہیں کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بو سے متعلق معلومات کا درست استعمال کرنے کے لیے حقیقی زندگی کے منظرنامے بہت پیچیدہ ہیں۔ ہمارے دوسری حسیں ان معلومات کو متاثر کر سکتی ہیں جو ہم سونگھ کر حاصل کرتے ہیں۔ جسمانی بو کے ذریعے ہم کسی دوسرے شخص کی خصوصیات کے بارے میں درست اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سورکووسکا کہتی ہیں کہ لیکن جب کسی شخص کی تصویر کے ساتھ ان کے جسم کی بو کا ایک سیمپل دیا جاتا ہے تو ’وہ پریشان ہو جاتے ہیں‘ اور کم ہی درست ہو سکتے ہیں اور ہم صرف شکل دیکھ کر ہی کسی کی خصوصیات کے بارے میں اندازہ لگانے کے قابل نہیں ہیں۔‘
سورکووسکا کہتی ہیں کہ جسم کی بو کسی کی خصوصیات جاننے کے لیے زیادہ درست طریقہ ہے لیکن شکل دیکھ کر کسی کی خصوصیات کا اندازہ لگانا آسان ہے، اور ہم اکثر وہ کرتے ہیں جو آسان ہوتا ہے۔
ایک اور مطالعے میں شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں کی ٹی شرٹس لے کر آئیں جبکہ غیر شادی شدہ خواتین اپنے افلاطونی عاشقوں کی ٹی شرٹس لے کر آئیں اور ان شرٹس کو دوسرے مردوں کی ٹی شرٹس کے ساتھ مکس کر دیا گیا۔
مگر کیا شادی شدہ خواتین نے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جن کے جسم کی بُو کو انھوں نے دوسروں پر ترجیح دی۔ مہموت کہتے ہیں کہ ’ایسا ضروری نہیں۔ اس بارے میں کوئی بڑا ثبوت نہیں ملا کہ انھوں نے اپنے ساتھی کو پہلے نمبر پر رکھا ہو۔‘
اس معاملے میں خواتین نے ایسے شوہر کا انتخاب نہیں کیا تھا جن کے جسم سے آنے والی بو ایسی تھی جو انھیں سب سے بہترین لگی۔
مہموت کے ایک اور مطالعے میں اجنبیوں کے جسم کی بو شادی شدہ مردوں کے جسم کی بو سے زیادہ شدید تھی۔ مہموت کے خیال میں ایسا اس لیے ہو سکتا ہے کہ ’ٹیسٹوسٹرون کی سطح اور شدید جمسانی بو کے درمیان باہمی روابط کے کچھ ثبوت موجود ہیں۔‘
ہم جانتے ہیں کہ ٹیسٹوسٹرون میں کمی اور عمر بڑھنے کے مابین ایک تعلق ہے جو شادی شدہ آدمی کی زندگی میں چل رہی چیزوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے، جب اس کی عمر 40 برس سے زیادہ سے ہو جاتی ہے۔۔۔ بچوں اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ترجیح دینا۔
ایسے مرد جو کسی کے ساتھ رشتے میں ہوتے ہیں اور جن کے بچے ہوتے ہیں، ان میں ٹیسٹوسٹرون کی سطح کم ہوتی ہے۔
لہذا ہم جانتے ہیں کہ ہم اپنے جسم کی خوشبو میں اپنے تولیدی معیار کے بارے میں معلومات ترک کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہم اس کا پتہ لگا سکتے ہیں لیکن ہم اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ تو کیا ہمیں ایسا کرنا چاہیے؟
سوروکوسکا کہتی ہیں کہ اگر آپ اچھے جینیات کے مالک ساتھی کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو اس بات پر توجہ دیں کہ ان سے کیسی بو آتی ہے۔
’لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ سب سے اہم چیز نہیں اور بہت سے لوگ ایسا نہیں کرتے۔‘
مہموت اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’خوشبو کی افادیت اب کسی حد تک کم ہو گئی ہے۔ حضرت انسان نے گذشتہ ہزاروں سال اپنی اصل خوشبو پر پردہ ڈالتے گزار دیے ہیں۔‘
اسی بارے میں
31 جولائی 2019