comparemela.com


باسمتی: انڈیا بین الاقوامی مارکیٹ میں سستا چاول فراہم کر کے پاکستان سمیت باقی ملکوں کے لیے کیسے مشکلات کھڑی کر رہا ہے؟
تنویر ملک
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’اِس وقت مجھے انڈین چاول سستے داموں مل رہا ہے اس لیے میں اسے خرید رہا ہوں۔ اگر مجھے انڈیا اور پاکستان سے آنے والا چاول ایک ہی قیمت پر ملے تو پھر بھی میری ترجیح انڈیا سے آنے والا چاول ہی ہو گی، جو پکانے میں اور ذائقے میں کافی بہتر ہے۔‘
یہ کہنا ہے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں مقیم چاول کے آڑھتی عیسیٰ کین کا جو انڈیا اور پاکستان سے چاول خرید کر انھیں افریقی ممالک کی منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں۔
عیسیٰ کہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں پیدا ہونے والے چاول کی کوالٹی میں اگرچہ کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا مگر پھر بھی انڈین چاول اپنے ذائقے میں تھوڑا بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ کم قیمت بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس چاول کی طلب زیادہ ہے۔
عیسیٰ بتاتے ہیں کہ انھی وجوہات کی بنا پر وہ اس وقت زیادہ چاول انڈیا سے درآمد کر رہے ہیں۔
پاکستان میں چاول کی تجارت سے وابستہ افراد کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان سے برآمد ہونے والا چاول بین الاقوامی مارکیٹ میں اُسی کوالٹی کے انڈین چاول سے مہنگا پڑتا ہے اور اسی لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں انڈین چاول تیزی سے پاکستانی چاول کی جگہ لے رہا ہے۔
چاول کے پاکستانی برآمدکنندگان انڈیا سے برآمد ہونے والے سستے چاول کو ایک قسم کی مبینہ ’ڈمپنگ‘ قرار دیتے ہیں اور اس کا مبینہ مقصد یہ ہے کہ انڈیا زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا چاول فروخت کر سکے اور چاول کی بین الاقوامی تجارت کے شعبے میں دوسرے تجارتی حریف ممالک پر سبقت لے جائے۔
ڈمپنگ سے مراد کسی بھی پراڈکٹ کو اس پر آنے والی لاگت سے کم قیمت پر فروخت کرنا ہے تاکہ مارکیٹ کو اپنے کنٹرول میں کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا چاول کے برآمدی شعبے میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دونوں ممالک باسمتی چاول کی جیوگرافیکل انڈیکشن (جی آٰئی) کی رجسٹریشن کے لیے یورپی یونین میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ جب انڈیا نے باسمتی چاول کے حقوق اپنے نام محفوظ کرنے کے لیے یورپی یونین میں درخواست دی تھی تو جواباً پاکستان نے اپنا کیس یورپی یونین میں جمع کروایا جس کے تحت باسمتی چاول پر دونوں ممالک کا مشترکہ حق ہے۔
ان حقائق کے پیش نظر اب انڈیا کی جانب سے سستے چاول کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں فراہمی کو پاکستانی برآمدکنندگان چاول کی ڈمپنگ قرار دے رہے ہیں جو ان کے نزدیک بین الاقوامی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
سستا انڈین چاول پاکستان کی برآمدات کو کیسے نقصان پہنچا رہا ہے؟
انڈیا کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں سستے چاول کی فراہمی نے پاکستان کے چاول کی برآمدات کو کیسے نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ ملک کے مالی سال 21-2020 کے پہلے گیارہ مہینوں میں چاول کی ایکسپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
زیر جائزہ عرصے میں پاکستان کی باسمتی اور دیگر اقسام کے چاول کی برآمد میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی اور یہ چودہ فیصد تک گر گئی۔ اس عرصے میں پاکستان نے 33 لاکھ ٹن چاول برآمد کیے جو گذشتہ سال کے اسی عرصے میں 38 لاکھ ٹن تھے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر عبدالقیوم پراچہ بتاتے ہیں کہ پاکستان بین الاقوامی منڈی میں چاول اوسطاً 450 ڈالر فی ٹن کی قیمت پر فروخت کر رہا ہے جبکہ اُسی کوالٹی کا انڈین چاول اوسطاً 360 ڈالر فی ٹن کے ریٹ پر دستیاب ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پراچہ نے بتایا کہ سستا انڈین چاول صرف پاکستان کی برآمد کو ہی متاثر نہیں کر رہا بلکہ چاول برآمد کرنے والے دوسرے ممالک بھی اسے متاثر ہو رہے ہیں جن میں تھائی لینڈ، ویت نام اور دوسرے ملک شامل ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں اس وقت انڈین چاول کی قیمت 360 سے 390 ڈالر فی ٹن ہے تو اس کے مقابلے میں پاکستانی چاول کی قیمت 440 سے 450 ڈالر فی ٹن پر موجود ہے۔ ویت نام اور تھائی لینڈ سے برآمد کیے جانے والے چاول کی قیمت لگ بھگ 470 ڈالر فی ٹن سے بھی ہے۔
انڈیا کی وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال میں انڈین نان باسمتی چاول کی برآمد میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 136 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح باسمتی چاول کی برآمد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انڈیا کا چاول کیوں سستا ہے؟
عالمی منڈی میں انڈیا کی جانب سے سستے چاول کی فراہمی کے بارے میں پاکستانی چاول کے برآمد کرنے والے کہتے ہیں کہ انڈین حکومت کی جانب سے کسانوں کو سبسڈی دیے جانے کی وجہ سے ایک تو چاول سستا پیدا ہوتا ہے تو دوسری جانب انڈیا میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت حکومت غریب افراد کو چاول بہت کم نرخوں میں چاول فراہم کرتی ہے۔
یہ چاول تجارتی شعبہ تھوڑے سے زیادہ نرخ ادا کر کے خرید لیتا ہے اور اسے برآمد کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
جنیوا میں مقیم چاول کے درآمد کنندہ عیسیٰ کین نے بتایا کہ ہر تجارتی شخص کی طرح وہ بھی مارکیٹ کی طلب پر اپنے فیصلے کرتے ہیں۔
کین نے بتایا کہ اگرچہ وہ جنیوا میں مقیم ہیں تاہم وہ چاول کی فروخت افریقی ممالک میں کرتے ہیں جہاں اس وقت انڈین چاول کی طلب زیادہ ہے۔
کین کے مطابق انڈین چاول پاکستان ہی نہیں بلکہ میانمار اور تھائی لینڈ کے چاول سے بھی بہت زیادہ سستا پڑتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چاول کے پاکستانی برآمد کنندہ توفیق احمد خان نے بتایا کہ چاول کے شعبے کو حکومت کی جانب سے انڈیا میں بہت زیادہ سبسڈی فراہم کی جاتی ہے جس میں سپورٹ پرائس سے لے کر بجلی، اس کی ٹرانسپورٹیشن پر دی جانے والی سبسٹدی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ انڈیا سے شپنگ کا کرایہ بھی پاکستان کی نسبت کم ہے اور یہ فیکٹر بھی انھیں چاول کی برآمد بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔
سستے انڈین چاول کی بین الاقوامی مارکیٹ میں فراہمی کی وجہ کیا اس کی ڈمپنگ ہے؟
توفیق احمد کے مطابق انڈیا چاول کی ڈمپنگ کر رہا ہے تاکہ دوسرے ملکوں کے چاول کے مقابلے میں اس کا چاول زیادہ بکے۔ انھوں نے کہا یہ بین الاقوامی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی ہے کہ آپ سبسڈی دے کر اپنے چاول کو بہت زیادہ سستا کر کے عالمی منڈی کو مکمل طور پر اپنے قابو میں کر لیں۔
توفیق نے بتایا کہ پاکستان میں چاول کی شعبہ مکمل طور پر نجی سطح پر کام کرتا ہے لیکن انڈیا میں حکومت اس میں دخل دیتی ہے اور سبسڈی دے کر اپنے چاول کو سستا کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں ڈمپ کیے جانے والے چاول کی وجہ سے ان کا اپنی برآمد بھی متاثر ہوئی ہے ۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر عبد القیوم پراچہ کے مطابق جو کچھ انڈیا کر رہا ہے وہ ایک قسم کی ڈمپنگ ہی لگتی ہے۔
عیسیٰ کین چاول کے پاکستانی برآمد کنندگان کے انڈیا کی جانب سے عالمی منڈی میں سستا چاول ڈمپ کرنے کے دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق کوئی ایسی صورتحال ان کے علم میں نہیں ہے۔
انھوں نے ڈمپنگ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اس میں لاگت سے کم قیمت پر کسی چیز کو فروخت کیا جاتا ہے تا کہ مارکیٹ کو اپنے کنٹرول میں کیا جا سکے۔
کیا سستے چاول کی فراہمی عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی ہے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
انڈیا کی جانب سے سستے چاول کی عالمی مارکیٹ میں فراہمی اور اس سے پاکستان کی چاول کی برآمدات کو پہنچنے والے مبینہ نقصان پر پاکستانی برآمد کنندگان تشویش کا شکار ہیں۔
عالمی تجارتی اُمور کے ماہر اور پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن، سارک چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ذمہ داریاں انجام دینے والے اقبال تابش کا کہنا ہے کسی خاص پراڈکٹ کی بہت زیادہ سستے نرخوں پر فراہمی جب کسی ملک میں پیدا ہونے والی اسی پراڈکٹ کو نقصان پہنچائے تو پھر اس ملک کے قوانین اس کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔
لیکن چاول کے معاملے میں انڈیا کسی خاص ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں چاول سستے داموں بیچ رہا ہے۔ انھوں نے کہا اس سلسلے میں آزادانہ اور ترجیحی تجارتی معاہدوں کو بھی دیکھنا پڑے گا جو انڈیا کے دوسرے ممالک کےساتھ ہیں۔
اقبال تابش نے کہا سب سے اہم بات یہ ہے کہ انڈیا اپنے زرعی شعبے کو گرین فیلڈ سبسڈی فراہم کرتا ہے اور وہاں پیداواری لاگت بھی بہت کم ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ صرف کھاد کی بوری کی قیمت سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو انڈیا میں 1600 روپے اور پاکستان میں اس کی قیمت 4500 روپے ہے۔
اسی بارے میں

Related Keywords

Thailand ,India ,United Kingdom ,Mali ,Vietnam ,Republic Of ,Geneva ,Genè ,Switzerland ,Ahmad Khan ,Punjab ,Pakistan ,Karachi ,Sindh ,Siam ,August ,International Gatewaya Indian ,European Uniona Application ,European Union ,International Gateway ,Pakistan Industrial Development Corporation ,City Geneva ,Name Reserved ,Application The ,Rice Exporters ,President Abdul ,Vietnam Name ,World Gateway ,Wizarate Tujarat ,Indian Non ,Bread Geneva ,Support Price ,World Market ,President Abdul Money ,Commerce Andy Industry ,Iqbal Washington ,Green Field ,January June Apr August October ,தாய்லாந்து ,இந்தியா ,ஒன்றுபட்டது கிஂக்டம் ,மாலி ,வியட்நாம் ,குடியரசு ஆஃப் ,ஜிநீவ ,சுவிட்சர்லாந்து ,பஞ்சாப் ,பாக்கிஸ்தான் ,கராச்சி ,சிந்த் ,சியாம் ,ஆகஸ்ட் ,ஐரோப்பிய தொழிற்சங்கம் ,சர்வதேச நுழைவாயில் ,பாக்கிஸ்தான் தொழில்துறை வளர்ச்சி நிறுவனம் ,பெயர் ஒதுக்கப்பட்டுள்ளது ,விண்ணப்பம் தி ,அரிசி ஏற்றுமதியாளர்கள் ,ப்ரெஸிடெஂட் அப்துல் ,உலகம் நுழைவாயில் ,ஆதரவு ப்ரைஸ் ,உலகம் சந்தை ,பச்சை புலம் ,

© 2025 Vimarsana

comparemela.com © 2020. All Rights Reserved.